Nigah

مودی کی شخصیت پرستی کا کلٹ اور جمہوریت کی زوال پذیری

مودی کی شخصیت پرستی

ستمبر 2025 میں نریندر مودی کا 75 واں یوم پیدائش دراصل ایک شخصی تشہیر کا عظیم الشان مظاہرہ بن کر سامنے آیا۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی رہنما کی سالگرہ کو اس قدر بڑے پیمانے پر سرکاری سطح پر منایا گیا۔ جیسے پورا ملک صرف ایک شخص کی تشہیر کے لیے وقف کر دیا گیا ہو۔ اخبارات، ٹی وی، سوشل میڈیا حتی کے سرکاری دفاتر تک میں مودی کی تصاویر، نعرے اور تعریفوں کے گیت گونجتے رہے۔

یہ کوئی عام جشن نہیں تھا بلکہ ایک ریاستی مالی معاونت یافتہ پروپیگنڈا شو تھا، جس نے حکمرانی اور عوامی خدمت کو پس پشت ڈال دیا۔

ستمبر 2025 کو بھارت میں "تصویر پر مبنی حکمرانی" کی انتہا دیکھنے میں آئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اس موقع پر 220 سے زائد اشتہاری اداروں نے 400 سے زیادہ اخبارات میں مودی کی تصاویر شائع کیں۔ صرف پرنٹ میڈیا میں 1 لاکھ 8 ہزار کالم سینٹی میٹر جگہ مودی کی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال ہوئی۔ اگر سیاسی اور سماجی اشتہارات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 3 لاکھ 63 ہزار کالم سینٹی میٹر تک جا پہنچی۔

ٹی وی پر بھی یہی منظر تھا۔ 90 بڑے نیوز چینلز نے مجموعی طور پر 28 گھنٹے تک مودی کی سالگرہ پر مشتمل خصوصی نشریات چلائیں۔ جبکہ حقیقی غیر سیاسی مواد بمشکل 30 منٹ شروع ہوا۔

یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پورا ملک میڈیا صرف ایک شخص کی تصویر دکھانے پر مامور کر دیا گیا ہو۔

یہ کوئی عوامی تقریب نہیں تھی بلکہ ایک منظم Public Relations Exercise تھی۔ جسے حکومت کے تمام وسائل کے ذریعے چلایا گیا۔ ریاست کے اشتہاری بجٹ، وزارت اطلاعات اور سرکاری محکموں کے فنڈز کو مودی کی ذاتی شان بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

اسی دوران عوامی فلاح، بنیادی مسائل اور حکومتی کارکردگی کا کہیں ذکر نہیں تھا۔

مودی حکومت نے اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے پروپیگنڈا کی طاقت پر مکمل انحصار کر لیا ہے۔ جہاں عوام بجلی، مہنگائی، بےروزگاری اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، وہاں حکومت کا زور صرف "مودی امیج” کو برقرار رکھنے پر ہے۔

یوں بھارت کا وزیراعظم عوامی رہنما نہیں بلکہ ایک اشتہاری پوسٹر کا چہرہ بن چکا ہے، جہاں قیادت کا معیار نعرے اور تصاویر رہ گئے ہیں۔

یہ تماشہ صرف جشن نہیں تھا بلکہ بھارت میں ابھرتی ہوئی شخصیت پرستی کا واضح مظہر تھا۔ ریاستی وسائل جو تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے چاہیے تھے، وہ ایک شخص کی تصویری عظمت کے لیے وقف کر دیے گئے۔ بھارت کے ٹیکس کا انتظام کا پیسہ جو عوامی ترقی کا حقدار تھا، اب اشتہاری مہمات کا ایندھن بن چکا ہے۔

سیاست میں کلٹ پرستی کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن مودی کے دور میں یہ رجحان خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مودی کی تصویر کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے تمام ترقی، فلاح اور استحکام صرف ایک شخص سے منسلک ہو۔ یہی وہ کلٹ ہے جو جمہوریت کی روح یعنی اجتماعی قیادت اور عوامی احتساب کو کمزور کر رہا ہے۔

آج بھارت کی گلیوں، عمارتوں اور شاہراہوں پر مودی کی تصویریں ہر سمت نظر آتی ہیں۔ یہ وہ بھارت ہے جو عملی حکمرانی سے زیادہ اشتہارات پر مبنی ریاست بن چکا ہے۔ ہر ترقیاتی منصوبہ، ہر افتتاح، ہر سکیم مودی کی تصویر کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔

یہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ مودی حکومت نے پالیسی کی جگہ پروپیگنڈے کو دے دی ہے۔ عوام کو نعرے دئیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار دکھائے جاتے ہیں مگر زمینی حقیقت مختلف ہے۔ بھارت کی معاشی بے روزگاری بلند ترین سطح پر اور غربت کے اضافہ واضح ہے۔ لیکن میڈیا پر مودی کی مسکراتی تصویر سب کچھ چھپا دیتی ہے۔ مودی کے بھارت میں حکمرانی کا مطلب صرف نعرے فروخت کرنا رہ گیا ہے۔

"سب کا ساتھ، سب کا وکاس” جیسے نعروں کے پیچھے غربت، عدم مساوات اور ناانصافی کی حقیقی کہانیاں چھپائی جا رہی ہیں۔ اور عوام کو امید کے بجائے اشتہارات دے جا رہے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں پچھلے دو سالوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے بجٹ میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود اشتہارات اور تشہیری مہمات کے لیے مختص فنڈز میں 45 فیصد اضافہ کیا گیا۔ یہی وہ تضاد ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی اصل ترجیح عوام نہیں بلکہ اپنی شبیہ کا تحفظ ہے۔

مودی کی شخصیت پرستی کا کلٹ اور جمہوریت کی زوال پذیری

مودی کے زیر سایہ بھارت کے ریاستی ادارے بھی آہستہ آہستہ تشہیری مشینری کا حصہ بن گئے ہیں۔ وزارت اطلاعات سے لے کر عوامی شعبے کے بینکوں تک۔ ہر ادارے کو مودی کی "عظمت” کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ ادارے جو کبھی عوامی خدمات کے ذریعے تھے، اب سیاسی تاثر سازی کے اوزار بن چکے ہیں۔ یہ صورتحال بھارت میں ادارہ جاتی غیر جانبداری کے خاتمے کی علامت ہے۔

ایک ایسی ریاست جہاں ہر پالیسی، ہر اشتہار اور ہر منصوبہ صرف ایک شخص کے گرد گھومتا ہو وہاں جمہوریت محض ایک دکھاوا بن جاتی ہے۔

مودی کے طرز حکمرانی نے بھارت میں جمہوری توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ بیوروکریسی، میڈیا حتی کہ عدلیہ تک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو کوئی سوال اٹھاتا ہے وہ "ملک دشمن” یا "غیر محب وطن” قرار پاتا ہے۔

جمہوری نظام میں قیادت کا مطلب عوامی خدمت ہوتا ہے۔ مگر مودی کے دور میں قیادت کا مطلب ذاتی پرستش بن چکا ہے۔ یہ وہ رجحان ہے جو ماضی میں دنیا کے آمرانہ نظاموں میں دیکھا گیا۔ جہاں رہنما کی تصویر سچائی سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔

ستمبر 2025 کا تماشہ صرف ایک دن کا نہیں تھا۔ یہ اس رجحان کی علامت ہے جس میں بھارت ایک بل بورڈ ریاست بن چکا ہے۔ جہاں ہر سڑک، ہر اشتہار اور ہر میڈیا بلیٹن مودی کے پروپیگنڈا کا حصہ ہے۔ یہ وہ بھارت ہے، جہاں پالیسی کی جگہ اشتہار، احتساب کی جگہ تالی اور ترقی کی جگہ تصویر نے لے لی ہے۔

ریاستی وسائل عوامی فلاح کی بجائے ذاتی امیج سازی میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ نہ صرف جمہوریت بلکہ بھارت کے مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک اشارہ ہے۔

مودی کا 75 واں یوم پیدائش اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں حکمرانی کا اصل مقصد عوامی خدمات نہیں بلکہ شخصی پروپیگنڈا بن چکا ہے۔ جہاں حکومت کو میڈیا کی چمک، اشتہارات کی وسعت اور نعروں کی گونج سے طاقت حاصل ہو۔ وہاں عوام کی آواز دب جاتی ہے۔

بھارت آج ترقی یافتہ قوم کے بجائے ایک بل بورڈ ریاست بن چکا ہے۔ جہاں وزیراعظم کے چہرے کی مسکراہٹ ہر بحران پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ پروپیگنڈا وقتی ہوتا ہے۔ حقیقت ہمیشہ اپنا راستہ بناتی ہے۔ جب اشتہارات ختم ہوں گے تو سوالات باقی رہ جائیں گے۔ وہ سوالات جو ہر جمہوریت کی بنیاد ہیں۔

"عوام کا پیسہ کس کے لیے؟”
"ریاست کس کی خدمت کر رہی ہے؟”
اور سب سے بڑھ کر، "کیا مودی کا بھارت واقعی عوام کا بھارت ہے”؟
اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔